Menu
Your Cart
بسم اللہ الرحمن الرحیم

Mera-Daghestan-Graphic-Edition-Deluxe-Quality میرا داغستان | مصور ایڈیشن | ڈیلکس کوالٹی

Mera-Daghestan-Graphic-Edition-Deluxe-Quality میرا داغستان | مصور ایڈیشن | ڈیلکس کوالٹی
Mera-Daghestan-Graphic-Edition-Deluxe-Quality میرا داغستان | مصور ایڈیشن | ڈیلکس کوالٹی
  • Model: ibu-86
  • SKU: ibu-86
Sold: 0
Product Views: 1094
$100.00

MERA DAGHESTAN | GRAPHIC EDITION | DELUXE QUALITY

’’میرا داغستان‘‘ مشہور آوار شاعر رسول حمزاتوف کی نثر کی پہلی کتاب ہے۔ داغستان، حمزاتوف کا محبوب ترین موضوع ہے۔ لکھتے ہیں: ’’داغستان میری ماں ہے، میری محبّت ہے، میرا عہد ہے، میری منت و سماجت ہے اور میری دُعا ہے۔ داغستان تُو اور صرف تُو ہی وہ موضوع ہے جو میری کتابوں کا خاص تصوّر اور میری ساری زندگی کا سرمایہ ہے۔‘‘ ’’میرا داغستان‘‘ زندگی اور آرٹ کے بارے میں انوکھے خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ اس کو آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز میں لکھا گیا ہے؛ یہ نظموں سے آراستہ ہے اور کہانیوں سے بھرپور! کبھی یہ شوخی کا اظہار کرتی ہے، کبھی اس سے رنج اور اُداسی ٹپکنے لگتی ہے۔قفقاز کے بلند پہاڑوں میں داغستان کے پہاڑی لوگ آباد ہیں۔ اس علاقے میں درجنوں قومیتوں کے لوگ بستے ہیں جن میں آوار قوم کے لوگ بھی ہیں۔ یہیں، قفقاز کے ایک آوار گاؤں، ’’سدا‘‘ میں 1923ء میں داغستان کے عوامی شاعر حمزہ سداسا کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام رسول رکھا گیا۔ رسول کا مطلب ہے پیغامبر اور رسول حمزاتوف داغستان کے پیغامبر ثابت ہوئے جنھوں نے اپنے علاقے اور لوگوں کے حالات زمین کے دُور دراز گوشوں تک پہنچائے ہیں۔ رسول نے گیارہ سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم کہی۔ سکول ختم کرنے کے بعد ماسکو کے ادبی انسٹیٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی اور اپنے وطن واپس آکر داغستان کا مقبول ترین شاعر بن گیا۔ رسول حمزاتوف کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ اور شاعری کے کئی مجموعے بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ 3نومبر 2003ء کو انتقال کیا۔


مترجم:

ڈاکٹر اجمل اجملی اُردو کے ترقی پسند شاعر، مترجم اور مدیر تھے۔ آپ الٰہ آباد کے ایک ادبی اور متصوفانہ گھرانے میں یکم مارچ 1935ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا سیّد احمد اجملی بھی صاحبِ قلم تھے اور خانقاہ اجملیہ کے سجادہ نشین اور صوفی منش انسان تھے۔ اجمل اجملی کی ابتدائی تعلیم روایتی مشرقی انداز میں گھر پر ہی اُردو، عربی اور فارسی کی تعلیم سے شروع ہوئی۔ بعدازاں 1955ء میں بی اے، 1957ء میں ایم اے (اُردو) اور 1964ء میں ڈی فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے پہلی غزل 1947ء میں لکھی تھی جو مجلہ دستور، کانپور میں شائع ہوئی۔ 1950ء میں پہلا مضمون ’’یوپی میں اُردو کا مسئلہ‘‘ مجلہ سیاست جدید، کانپور میں شائع ہوا تھا۔برصغیر کی ہندو- مسلم فرقہ واریت سے دلبرداشتہ ہوکر آپ کمیونزم کی جانب مائل ہو گئے اور 1964ء میں سوویت یونین انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے مجلے ’’سوویت دیس‘‘ سے وابستہ ہوئے جس کی ادارت کے فرائض 1990ء تک نبھاتے رہے۔ آپ ایک لمبے عرصے تک ترقی پسند تحریک کے فعال رکن رہے۔آپ کا واحد شعری مجموعہ سفرزاد کے نام سے 1990ء میں چھپا جس پر آپ کو یوپی اُردو اکادمی کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ شاعری کے علاوہ آپ نے دو کتابیں، ’’اُردو سے ہندوؤں کا تعلق‘‘ اور ’’شاعرِ آتش نوا: بنگالی شاعر قاضی نذرالاسلام کی شاعری اور سوانح‘‘ کے نام سے بھی لکھیں۔ مضامین کا مجموعہ ’’اظہارِ خیال‘‘ کے نام سے چھپا۔ آپ ایک منجھے ہوئے مترجم بھی تھے۔ آپ کے اہم تراجم میں میرا داغستان ، نقوشِ لینن، ذکرِ میر (ہندی)، جامِ جہاں نما، ایشیائی قوموں کے خلاف استعماری یلغار کے ترجمے شامل ہیں۔ 6 اَگست 1993ء کو دہلی میں انتقال کیا۔


مستنصر حسین تارڑ:

بڑی کتابیں تجربہ کار عورتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ جب تک آپ کا تجربہ اُن کے ہم پلّہ نہیں ہوتا،آپ انھیں نہیں سمجھ سکتے۔ میں رسول حمزاتوف کا اسیر ہو گیا تھا۔ میں اُس کے داغستان اور مٹی کی محبت میں قید ہو گیا۔ وہ مجھے اپنے پنجاب کے قریب لے آیا تھا۔ وہ مجھے اُس کے ایک ایک درخت، ہر موسم، ہر جوہڑ اور ہر داستان کے قریب لے آیا تھا۔ میں نے کبھی سوہنی کے حُسن یا ہیر کے رانگلے پلنگ یا صاحباں کے جنس بھرے عشق پر غور نہیں کیا تھا۔ رسول نے مجھے اپنے بےتوقیر اور بےبس ادیب ہونے کا احساس دلایا۔ میرا دامن اُس کی نسبت سے کہیں زیادہ پُرکشش اور ہیرے موتیوں سے مالا مال تھا لیکن میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا... اور ایک ندامت بھی تھی، میں رسول جیسا ایک صفحہ بھی لکھنے پر قادر نہیں تھا۔ جن چار پانچ کتابوں نےمیری زندگی پہ بہت گہرا اثر کیا ہے اور جو میری ذات کا ایک حصہ بن گئی ہیں بلکہ سوچ سوچ کے جو کچھ میں نے لکھا ، اس میں ان کی مہک ضرور شامل ہے۔ جب میں نے ’’میرا داغستان‘‘ پڑھی تو یہ اُن چار پانچ کتابوں میںشامل ہوگئی جو میری تخلیقی حس تھی، اس کا ایک حصہ بن گئیں تھیں۔ مَن تُو شُدم، تُو مَن شُدی والا سلسلہ ہے کہ مجھ میں اور اُن میں کوئی فرق نہ رہا۔

میری خواہش تھی کہ کوئی تو شخص ہو، کوئی ایسا ناشرہو، جو رسول حمزاتوف کو،اس کا جو اصل مقام ہے، اس کے مطابق اس کی کتاب چھاپے۔تو میں بک کارنر پبلشر کے ان دو بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد سے یہ کہوں گا کہ آپ نے یہ جو فیصلہ کیا ہے، تو میرا خیال ہےکہ آپ کو کہیں سے خبر ہو گئی ہے کہ میں یہ خواب دیکھتا ہوں، ورنہ آپ کو یہ خیال کیسے آتا! تو بہت بہت شکریہ کہ آپ میرے خواب کی تعبیر کر رہے ہیں اور مجھے اس لیے یقین ہے کیونکہ آپ کی پروڈکشن واقعی اچھی ہوتی ہے۔ مثلاً میں نے آپ کی شائع کردہ ابوبکر سراج الدین (مارٹن لنگز) کی شاہکار کتاب ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اور بلونت سنگھ کی کتابیں دیکھی ہیں یا گلزاؔر کی جو کتابیں ہیں، اور بھی جتنی کتابیں آپ نے شائع کی ہیں، ان کی طباعت کا، کاغذ کا اور ٹائٹل کا معیار بہت بلند ہوتا ہے۔ میری خواہش ہےکہ رسول حمزاتوف کی ’’ میرا داغستان‘‘ پر بھی آپ پوری توجہ دیں اور اس کی پہلی کاپی مجھے روانہ کریں۔


Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good
Captcha